Photo courtesy the author, Heidelberg, Germany, 2015
یہ کتنا عجیب ہے یوں کہنا کہ ہم طرقّی یافتہ وقت سے تعلق رکہتے ہیں. لیکن اگر غور کریں تو حیرت ہوتی ہے. ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہم نےٓ دور میں صرف سانس تو لے رہے ہیں پر ہماری سوچ اور غوروفکر کرنے کی صلاحِیَت قدیم سے قدیم تر ہے. سچ کہوں تو قدیم بهی کہنا کچھ مناسب نہیں. کیوں کہ قدیم سے ہی تو جدید نکل کر آتا ہے. قدیم چیزوں کا تعلق تاریخ کے پنّوں میں درج ہوتا ہے، تو کبهی عجائب خانوں میں محفوظ ہوتا
سچ کہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ‘انسانیٓت’ کا کسی نے قتل کر ڈالہ ہے، اور قاتل ہم سب ہیں۔
آج غور کرتی ہوں تو کچه باتوں پر بڑی حیرت ہوتی ہے. ایک یہ کہ ‘اورنگزیب روڑ’ کے نام کی تبدیل ہونا مجهے ماضی میں لے گیا. پچهلے سال ہائڈلبرگ کا دوره، جہاں پر ہزاروں سڑکوں میں ایک سڑک کا نام ‘اقبالِ اُفور’ بهی تها. یہ اقبال وه ہی شخشیٓت جن کی ذات کو لیکر ہم لڑتے کہ ‘یہ آیا‘ ہندوستانی ہیں یا پاکستاني’! ایسا محسوس ہوا جیسے انہیں اس بات کی پرواه نہیں کہ وه ذات کس ملک کا واسی ہے؟ انہیں تو مطلب اس ذات سے ہے جو ایک نظم نگار، سیاستداں، اور فیلوسوفر تها. یہ اس ملک کی بات ہے جسے ہم آم فہم زبان میں ‘ہِٹّلر کی دنیا’ کہتے ہیں. پهر ہماری دنیا کو کیا ہوا؟
کتنی ہی دلکش بات تهی کہ نہ صرف روڑ ہی ان کے نام کر دی لیکن وه نظم ‘ایک شام’ جسکو انہوں نے دریائےِ نکّار کے کنارے پیرویاتها. ایک بڑے پتّهر پر تراش کر رکهی گئ تهی. ایسے جیسے .کوی آرڈ اوبجیکڈ کسی عجائب خانے میں محفوظ کر دی گئ هو
Photo courtesy the author, Heidelberg, Germany, 2015
آج پهر یه سب کیوں؟ کیوں هم بهول گیں که کبهی اشوکا،کبهی نانک،کبهی گوتم، تو کبهی اکبر و اورنگزیب آے اور چلے گے. هماری تهزیب انڈو پرشین کے بهی نام سے جانی جاتی هے تو پهر همارا کلچر کسی ایک رسی میں بادهها قیدی کیوں
علامہ اقبال ی پیدائیشء، ۹ نویمبر۱۸۷۷، سیال کوٹ، پنجاب
اپریل ۱۹۳۸، لاهور، پنجاب